دبئی، 10فروری (آئی این ایس انڈیا)امریکا میں نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے آنے کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن دونوں ملکوں کے بیچ تعلقات میں کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایردوآن روسی ساختہ S-400 فضائی دفاعی نظام سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے مقابل وہ واشنگٹن سے چاہتے ہیں کہ وہ شام میں کرد فورسز کی سپورٹ سے دست بردار ہو جائے۔
بلومبرگ نیوز ایجنسی نے ترک ذمے داران کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر امریکا مذکورہ کرد فورسز کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے بلکہ انہیں دہشت گرد تنظیم کا درجہ دے دیتا ہے تو ایردوآن حکومت روسی فضائی دفاعی نظام سے دست برداری کے لیے تیار ہے۔
ترک ذمے داران نے اپنے نام ظاہر نہیں کیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ترک حکام پر لازم ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر قائم رہیں بالخصوص جب کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ انقرہ ترک فوج کے پاس موجود امریکی ہتھیاروں کے فاضل پرزہ جات کی ترسیل سے محروم ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ روسی ساختہ S-400 فضائی دفاعی نظام نے 2019ء میں انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کو کشیدہ بنا دیا تھا۔ اس وقت امریکی انتظامیہ نے ترکی کو "پیٹریاٹ" میزائل نظام کی فروخت روک دی تھی۔ واشنگٹن کا موقف ہے کہ ترکی کے ساتھ اس ٹکنالوجی کی شراکت سیکورٹی خطرہ بن سکتی ہے۔
اسی طرح امریکا نے متعدد ترک کمپنیوں پر پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں۔
ترکی کے وزیر دفاع حلوصی آقار نے منگل کے روز ایک اخباری انٹرویو میں باور کرایا کہ ان کا ملک مذاکرات کا خواہاں ہے۔ ترکی اخبار 'حریت' سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ روسی میزائل نظام خطرے کی صورت حال کی نوعیت سے استعمال کیا جا سکتا ہے ،،، جیسا کہ یونان میں روسی میزائلوں کو محدود پیمانے پر استعمال کے لیے نصب کیا گیا ہے۔
ترکی کی جانب سے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی یہ کوشش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ امریکی سینیٹ میں دونوں جماعتوں کی اکثریت نے منگل کے روز بائیڈن انتظامیہ سے ایک مطالبہ کیا ہے۔ مطالبے میں زور دیا گیا ہے کہ ترکی پر دباؤ ڈالا جائے تا کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مزید کوششیں کرے۔
توقع ہے کہ جو بائیڈن روسی میزائلوں کے معاملے کے علاوہ انسانی حقوق کے میدان میں ترکی کے ریکارڈ کے حوالے سے ترکی کے ساتھ زیادہ سختی سے پیش آئیں گے۔